Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

شیری اماں جان سے بڑے پر تپاک انداز میں ملا تھا، اس کے انداز میں اتنی محبت بھری بے ساختگی تھی کہ اماں جان کے دل میں جو اس کی طرف سے بدگمانی کی گرہ پڑی ہوئی تھی وہ کھل تھی، حسب عادت وہ اس سے محبت سے باتیں کر رہی تھیں۔ ملازمہ نے چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے اس کی خاطر و مدارات کی تھی اور عادلہ نے فرماں برداری سے سرونگ کی تھی۔
”ابھی تک سیر سپاٹے ہی کر رہے ہو بیٹا! کام کرنے کا بھی کچھ سوچا ہے؟ تمہیں یہاں آئے ہوئے خاصے دن ہو گئے ہیں۔
“ چائے کے بعد اماں نے پان بنانے کی تیاری کرتے ہوئے پوچھا۔
”دادی جان! میں بینکر بننا چاہتا ہوں، ایم بی اے بھی میں نے اسی لیے کیا تھا مگر ڈیڈ ضد کر رہے ہیں کہ مجھے برنس میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور میں ابھی فیصلہ نہیں کر رہا ہوں۔


“ بہت شائستگی سے اس نے جواب دیا تھا۔

”ٹھیک تو کہہ رہے ہیں تمہارے ڈیڈ! تمہیں اپنے والد کا کاروبار ہی سنبھالنا چاہیے بیٹا! ویسے بھی لوہار کا بیٹا لوہار اور سنار کا بیٹا سنار ہی بنتا ہے پھر تم اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہو، تم کو ان کا اور بہنوں کا بے حد خیال رکھنا چاہیے۔
“ دادی نے نفاست سے پان کا یک ٹکڑالے کر کتھا، چونا لگایا، چھالیہ اور سونف ڈال کر دونوں طرف سے موڑ کر منہ میں رکھا تھا پھر پان کھاتے ہوئے وہ اپنے پاندان کو درست کرنے لگی تھی ساتھ ہی وہ اس کو سمجھاتی بھی جا رہی تھی جب کہ شیری بڑی دلچسپی سے ان کی تمام کاروائی دیکھنے کے بعد گویا ہوا۔
”جی……جی بہتر دادی جان! آپ کہتی ہیں تو میں ڈیڈ کے ساتھ ہی آفس جانے لگتا ہوں، آپ کی بات تو میں ٹال ہی نہیں سکتا ہوں۔
”جیتے رہو، خوش رہو، اللہ تمہیں کامیاب کرے ہر امتحان میں۔“
”دادی جان! یہ آپ نے کیا کھایا ہے ابھی؟“
”پان ہے بیٹا یہ۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا، اسی اثناء میں عادلہ بھی دادی کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی تھی، شیری کرسی پر بیٹھا تھا۔
”کیا آپ مجھے یہ کھلانا پسند کریں گی؟“
”ارے تم کھاؤ گے پان! ابھی دیتی ہوں۔
”آپ کھائیں گی تو میں بھی کھا سکتا ہوں دادی جان! میں جانتا ہوں یہ پان کوئی اسپیشل چیز ہے جو آپ کھا رہی ہیں، میرے خیال میں یہ اسپیشل نہ بھی ہو تو آپ کے کھانے سے اسپیشل بن جاتا ہے۔“
”دادی کی عادت ہے پان کھانے کی ورنہ پان میں کوئی اسپیشلیٹی نہیں ہے۔ ہم نے بہت چاہا دادی پان کھانا چھوڑ دیں، مگر دادی کھانا چھوڑنے کو تیار تھیں پان نہیں۔
“ عادلہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ارے چھوڑو بھی، بندر کیا جانے ادرک کا مزا۔ عادلہ! یہ تو بادشاہوں کے شوق ہیں ہر کوئی تھوڑی کر سکتا ہے، اس شوق کو پورا پھر تمہیں کیا پتا ہے میرا شوق، یہ تو ہمارا خاندانی ورثہ ہے۔ چائے اور پان ہمارے گھرانے کی تویہ پہچان ہیں۔“
”جی! بالکل درست کہہ رہی ہیں دادی جان آپ۔“ شیری نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ان کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”دادی جان! آپ کو ڈاکٹر نے پان کھانے سے منع کیا تھا، اس لیے پاپا چاہتے ہیں آپ پان نہ کھایا کریں صرف یہ وجہ ہے۔“ شیری کی سعادت مندی نے عادلہ کو پریشان کر دیا تھا۔
”ڈاکٹر تو ہر اچھی چیز کو منع کرتے ہیں اور خود کیا کرتے ہیں؟ ہڑتالیں…وہ لوگ جو زمین پر رہتے ہوئے بھی فرشتے کہلاتے جاتے ہیں، آج اپنی خواہشوں کے پیچھے مسیحائی بھول کر انسانیت کو موت کا کفن پہنا رہے ہیں، عرش سے پستیوں میں جا گرے ہیںَ“
”یہاں تو ہر طرف ہی ایسی افراتفری و بے حسی دکھائی دیتی ہے، لوگ خود غرض ہو گئے ہیں، ذاتی مفاد کو اولیت دینے لگے ہیں۔
“ شیری نے کہا تھا اس کے انداز میں اب بے کلی ابھرنے لگی وہ جس کی چاہ میں یہاں کشاں کشاں کھنچا چلا آیا تھا وہ ستم گر موجود ہی نہ تھی خاصی دیر سے وہ دل کو تھپکیاں دے رہا تھا۔
وہ بھی آئے گی…مگر وقت گزر رہا تھا، وہ نہیں آئی تھی۔ اس کی متلاشی نظروں میں اضطراب ہلکورے لینے لگا تھا۔ وہ دادی سے اجازت لے کر اٹھ گیا، ساتھ ہی جلد آنے کے وعدے کے ساتھ عادلہ اسے کارتک چھوڑنے کے لیے آئی تھی۔
”آپ نے دادی سے وعدہ کیا ہے بہت جلد آنے کا، کیا آپ سچ مچ جلد آئیں گے؟“ لان میں کوئی بھی نہیں تھا دادی بھی گھٹنوں کے درد کے باعث کمرے تک محدود تھیں، ملازمہ کچن میں مصروف تھی، آج کوئی بھی تو گھر میں موجود نہیں تھا اور اس نے راستہ صاف دیکھ کر دل کی بات کہنا مناسب سمجھا جواباً شیری نے ڈرائیونگ ڈور کھولتے ہوئے اس کی طرف مڑکر دیکھا پر پل سوٹ میں ملبوس سیاہ زلفوں کو بکھیرے لائٹ میک اپ میں وہ ایک خوب صورت لڑکی تھی۔
اس کی خوب صورتی ایسی تو نہ تھی جو نظر انداز کی جا سکے پھر وہ جن نظروں سے شیری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔
”آپ چاہتی ہیں میں آؤں؟“ اس نے جھک کر سر گوشیانہ لہجے میں استفسار کیا۔
”ہاں بالکل! میں انتظار کروں گی۔“ عادلہ نے بھی مسکرا کر اسی انداز میں سر گوشی کی تھی۔
”پھر تو آپ سے فرینڈ شب کرنی پڑے گی، کیا آپ کریں گی؟“
”ہاں کیوں نہیں شیری! اس نے شیری کا بڑھا ہوا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے شیری کی آنکھوں میں پُراسرار یت چمک اٹھی۔
###
ضروری نہیں ہے
جو ساحل کی گیلی خنک ریت پر
ہاتھ میں ہاتھ دے کر
سفر اور تلاطم کے قصے سنائے
اور آنکھوں سے اوجھل کناروں پہ بکھرے
ہوئے منظروں، ذائقوں اور رنگوں کی باتیں کرے
وہ ان وارداتوں سے گزرا بھی ہو
گرکہے آؤ ہم ان پریشان موجوں کا پیچھا کریں
جو تیرے اور میرے پاؤں کو چومتی ہیں
یہ دیکھیں ہوائیں کسے ڈھونڈتی ہیں
تو چلنے سے پہلے سوچ لینا
ضروری نہیں ہے جو ان دیکھے رستوں کی خبریں سنائیں
وہ ان راستوں کا شناسا ہو
کہیں یہ نہ ہو جو سمندر میں تم
اس کو ڈھونڈو تو وہ
ساحلوں پہ کھڑا مسکراتا رہے
”رخ! تم مجھے بار بار یہ مت کہو میں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے۔
حارث کرمانی کے حکم پر ساحر کو ایک بار پھر اس کوٹھری میں پہنچایا گیا تھا، وہ حبشی ملازمہ ان کے درمیان موجود تھی، ساحر کے یہاں آنے سے قبل وہ ایک ریشمی رومال سے ماہ رخ کے ہاتھ باندھ چکی تھی۔
”جو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کو بھی بدلے میں دھوکے ہی ملتے ہیں۔ تم کیا سمجھ رہی تھیں جو گڑھا کھود رہی ہو اس میں تم نہیں گروگی؟ تم جھوٹ پہ جھوٹ بولتی جاؤ گی، دغاپر دغادیتی جاؤ گی اور کوئی پکڑے گا نہیں؟ تم ایک سبزی فروش کی بیٹی تھیں اور کالج میں بتاتی تھیں تمہارے ڈیڈی بہت بڑے بزنس مین ہیں۔
“ وہ گردن جھکائے سن رہی تھی آنسو تو اتر سے بہہ رہے تھے وہ خود کو میدان حشر میں کھڑا محسوس کر رہی تھی۔ وہ برہنہ کھڑی ندامت و خوف کے پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کا اعمال نامہ سنایا جا رہا تھا اور وہ پسینے میں ڈوبتی جار ہی تھی۔
”تم سے دوسری ملاقات کے بعد ہی میں جان گیا تھا کہ تم وہ نہیں ہو جو بن کر آتی ہو اور میرا یہ تجسس مجھے بہت جلد تمہاری اصلیت کی جانب لے گیا تھا ور ایک دن تمہار اپیچھا کرتا ہوا میں علاقے میں پہنچ گیا تھا ور تمہیں ایک قدیم طرز کے تعمیر شدہ گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر مجھے پہلے یقین ہی نہیں آیا تھا ور میں نے جب وہاں کے لوگوں سے معلومات لیں تو میرا شک سچ ثابت ہو چکا تھا۔
تم ایک غریب لڑکی تھیں جو گھر سے کالج کے لیے نکلتی تو ایک بڑی سی شال میں لپٹی ہوتی تھیں جو کالج تک پہنچتے پہنچتے غائب ہو جاتی اور کالج میں داخل ہونے والی لڑکی پردے دار کسی سبزی فروش کی بیٹی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ایک جھوٹے کریکٹر کی دولت مند ماڈرن لڑکی بن جاتی تھی۔“ ایک کے بعد ایک گناہ افشا ہور ہا تھا۔
آگ کے طوق تھے جو اس کے گلے میں پہنائے جا رہے تھے جس سے گردن تھوڑی سے جا لگی تھی شعلوں سے بھڑکتی بیڑیاں اس کے وجود کو جکڑتی جا رہی تھیں، تکلیف ودرد کا احساس تھا۔
ذلت ورُسوائی کا احساس تھا۔ جھوٹ کی لذت شدید اذیت بن کر وجود میں سرائیت کر رہی تھی، منوں ٹنوں بوجھ اس کی گردن پر آن پڑا تھا کہ وہ جنبش بھی نہیں کر پا رہی تھی۔
”جو ہوا سو ہوا ماہ رخ! خوابوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ تم جس طرح کی شاہانہ زندگی گزارنے کی خوزہش مند تھیں، وہ زندگی تمہاری منتظر ہے پھر تم کیوں بھا گ رہو ہو؟“ اس کو ماضی کا آئینہ بھر پور طریقے سے دکھانے کے بعد ساحرنرم لہجے میں گویا ہوا تھا لیکن ماہ رخ اس طرح خاموشی سے گردن جھکائے آنسو بہاتی رہی تھی دوبارہ اس سے بات نہیں کی تھی۔
”تم خوش قسمت ہو ماہ رخ! جو سمجھانے کے لیے حارث صاحب نے مجھے یہاں بلوایا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تم کو پسند کرنے لگے ہیں وگرنہ عورتوں کے معاملے میں وہ بہت بے رحم و سفاک ہیں۔ ذرار عایت دینے کے عادی نہیں ہیں عورت کو۔“ ملازمہ صابرہ ٹکر ٹکران دونوں کو دیکھے جا رہی تھی ان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں استعمال ہونے والی زبان سے وہ نابلد تھی مگر اپنی زنانہ فطری تجسس سے مجبور وہ سمجھنے کی سعی میں مگن تھی۔
”مارہ رخ……ماہ رخ! میری باتیں سمجھنے کی کوشش کرو تم۔“
”مرنے دو مجھے، میں تمہاری کوئی بات سمجھنا نہیں چاہتی، دفع ہو جاؤ یہاں سے، میں تمہاری صورت تک دیکھنا نہیں چاہتی ہوں۔“ وہ اس کی جانب دیکھے بنا نفرت سے غرائی تھی۔
”جارہا ہوں میں لیکن تم بھی اپنا یہ پارسائی کا ناٹک بند کرو اور حارث صاحب جو چاہتے ہیں وہ کرو، یہی بہتر ہے تمہارے لیے۔
”میں خواہشوں کے پھول توڑنے کی خاطر اپنا آپ کانٹوں سے الجھا بیٹھی ہوں اور اب تادم مرگ مجھے ان ہی کانٹوں کی سیج پر لوٹ پوٹ ہونا ہے، جو میں نے کیا اسے تو شاید اللہ تعالیٰ بھی معاف نہ کریں گے، پھر بھی میں مرتے دم تک اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کروں گی۔“ ایک دم ہی آنسو صاف کرتے ہوئے ایک عزم اس کے اندر بیدار ہوا تو وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
”میں نے ماں باپ کو دھوکہ دیا تو بدلے میں میری زندگی جہنم بنا دی گئی، تمہارا کیا ہوگا تم نے نا معلوم کتنی لڑکیوں کو تباہ کیا ہے؟“

   1
0 Comments